کچھ یوں وحشت کا عالم ہے کہ بس
تمہاری ہجر پہ تڑپنے سے بھی ڈرتے ہیں
ایک
تم ہی تھی شکستِ زندان' بس تم ہی تھی کہ بس
ورنہ
لوگ کہاں یوں آزادی کیلئے مرتے ہیں
یہ
کہاں کا دستور ہے کہ بندوق اٹھا لیا تم نے
ارے
صاحب! بیٹھو تو' بات کرتے ہیں
فاصلوں
کو مٹا کے پیار بڑھانا ہے
ہم
کیسے لوگ ہیں کہ نفرتیں بکھرتے ہیں
ایک
ہی شخص تک نیہں محدود یہ نعرہِ آزادی
یہ
کچھ دیوانے لوگ گولیوں سے کہاں سدھرتے ہیں
ایک
تشنگیِ آزاد خیالی' ایک جامِ بے خودی
تم
پیتے جاؤ ساقی' لاؤ آج ہم بھرتے ہیں
وہ
جذبہ سلامت ہے' سبیں ایک ہریالی ہے
یہ
جو حیوانِ ناطق ہیں' اسی گلشن میں چرتے ہیں
میں
بول اٹھوں گا آج بھی جو بات میرے دل میں ہے
ہم
جیسے باغی صاحب' ہر دور میں گزرتے ہیں!
No comments:
Post a Comment