"اگر دنیا میں عشق نہ ہوتا تو کیا ہوتا
نہ تو صنم بندا ہوتا اور نہ تصورِ خدا ہوتا"
ایک پیچیدہ عنوان پر
بحث کی ابتدا اپنی اس حقیر سی شاعری سے کرنے کی گستاخی اس لئے کررہا ہوںکیونکہ یہ بندہ خاکسار کا پہلا لکھا ہوا شعر تھا۔یہ
شعر میں نے اس وقت زیر قلم کیا تھا جب میں
دوسری جماعت کا طالب علم تھا. آج مجھے اس شعر
کی یاد اس لیے آرہی ہے کیونکہ میرے
ایک شریر دوست نے میرے اسلامیات کے استاد محترم کو جاکے بتادیا تھا کہ میں نے کوئی بکواس چیز لکھی ہے- جناب محترم نے بستہ پر چھاپہ دیا اور
نتیجتا یہ شعر برآمد کرلیا۔ شعر پڑھتے ہی
آگ بگولا ہوگئے اور مجھے کلاس سے نکلنے کا
حکم دیا۔ کلاس کے بعد باریک سی چھڑی لیکے آئے اور پورے کلاس کے سامنے میری پیٹائی
کی اور ساتھ ساتھ یہ کہتے رہے کہ " خدا کے بارے میں آئیندہ ایسا لکھو
گے؟" اور " تمہیں غالب بننے کا بہت شوق ہے؟"۔ اس حد تک مارتے رہے
جب تک کہ چھڑی ٹوٹ کے پاش پاش نہیں ہوئی۔ لہذا اب جب بھی عشق' شاعری اور خدا کا
نام سنتا ہوں تو جسم کے پنتالیس جگہوں پہ درد ہونے لگتا ہے۔ اب اس عنوان پر شاعری
اور جہاد کو سامنے رکھتے ہوئے لکھنا کسی اذیت سے کم نہیں ہے' لیکن شاید آج یہ
مضمون لکھتے لکھتے دل کی بھڑاس نکل جائے۔
سید سلیمان ندوی نے کئی سالوں پہلے یہ نصیحت کی تھی کہ
نوجوانوں کو میرؔ اور غالبؔ کی شاعری
پڑھنے سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ وہ آوارہ ہوجائیں گے اور جہاد کے مطلب کے نہیں
رہیں گے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ یہ نظریہ آج بھی سالم و داِئم ہے اور کل کے بس کا
حادثہ اس کی عکاسی کرتاہے۔ پنتالیس انسانی
جانوں کے صدمے کو دل میں دبائے اس عنواں
پر کچھ لکھنا بہت مشکل ہے مگر اتنا ہی اہم
بھی ہے۔ اس حادثے کی بعد بس کے اندر سے جو دھمکی آمیز خط ملی' اس میں یہی پیغام
لکھا تھا کہ جب تک شریعت نافذ نہیں کریں گے تب تک یہ لوگ کافروں کے خلاف جہاد کرتے
رہیں گے اور انہیں قتل کرتے رہیں گے۔ سید سلیمان ندوی جیسے عظیم بزرگ اور
عالم سے انتہائی معذرت کے ساتھ یہ کہنا پڑ
رہا ہے کہ جو انہوں نے جہاد پر اتنا زور دیا اور ادب و تخلیق کی مذمت کی تھی 'اسی
وجہ سے کچھ ایمان سے سرشار مسلمانوں نے
جہاد کے نام پہ یہ جبر' ظلم اور شرپسندی کا راستہ اختیار کیا- ایسے ہی لوگ آج
انسانیت کی جان کا دشمن بنے ہوئے ہیں۔ کیا
ہی اچھا ہوتا کہ ان ظالموں کو بندوق کی جگہ دیوان غالب اور دیوان میر تھمایا جاتا
اور جہاد کی جگہ انھیں انسانیت سکھائی
جاتی۔کاش میں اپنے اسلامیات کے استاد کو یہ سمجھا سکتا کہ میرے شعر کا مطلب یہی تھا کہ عشق کے بغیر نہ انسان انسان
بن سکتا ہے اور نہ ہی خدا تک رسائی حاصل کرنا ممکن ہے۔
میرے کہنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ جہاد کوئی برا عمل
ہےبلکہ میرا یہ ماننا ہے کہ شاعری اور ادب
کے زریعے انسان جہاد سے دور نہیں ہوگا البتہ ایک بامعنی جہاد کرنے کے قابل ہوگا.ایسی جہاد جس سے خود کو
بھی اور دوسروں کو بھی فائدہ ہو' چاہے وہ جہاد بالقلم ہو یا جہاد بالنفس. محمد
حسن عسکری صاحب ' سلیم احمدصاحب اور
انتظار حسسیں صاحب نے اپنے اپنےمضامین می بہت خوبصورت انداز سے سید سلیمان ندوی
صاحب کے دعوی کو رد کردیا ہے کہ میرؔ اور
غالبؔ کی شاعری نوجوانوں کو آوارہ کردیتی
ہے .جن لوگوں کو غالبؔ اور میرؔکی شاعری پر اعتراض ہے وہ کچھ اس بنیاد پہ ہے کہ ان کی شاعری نوجوانوں کو عشق
سکھاتی ہے. اس سے زیادہ بے معنی اور بیکار
بیان کیا ہو سکتی ہے کہ عاشقی کیلیئے شاعروں
کو الزام کا نشانہ بنایا جائے ؟ محمد حسن عسکری
صاحب اپنے مضمون "عشق'ادب اور
معاشرہ"میں اس بات کو کچھ یوں رد کرتے ہیں: " عشق کرنا
ادب سے نہیں سیکھا جاتا. یہ تو ایک جبلت
ہے. ممکن ہے کہ بری جبلت ہو مگر نسل انسانی کے بقا کیلئے ضروری ہے. ادب تو یہ
سکھاتا ہے کہ عشق معصومیت اور شرافت کے ساتھ بھی کیا جا سکتا ہے اور چھچھورپنکے
ساتھ میرؔ اور غالبؔ کو مٹا دیجیے تو عشق لوگ پھر بھی کرتے رہیں گے ' البتہ ذرا بے
ڈھنگپن اور بے شعوری اور کمینےپن کے ساتھ کریں گے". اس سے اچھے انداز میں سید
سلیمان ندوی صاحب کی بات کا جواب دینا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
اتفاق کی بات ہے کہ بنده ناچیز کو
بھی ایک حسینہ پسند آئی اور میں نے ان سے کہ دیا کہ ہمیں ان صاحبہ سے عشق ہوگیا
ہے. انہوں نے شروع میں تو کچھ نہیں کہا
لیکن میرے اسرار کرنے پر انہوں نے حد ِغرور
کے ساتھ انگریزی کے دو لفظ کہ گئی کہ "لوو ہرٹس ". اس جواب پر میرے منہ
سے کچھ نہ نکل سکا کیونکہ وہ محترمہ ذرا ماڈرن تھی اور وہ شکیرا اور ایمنیم سے متاثر تھی تو انہوں نے مغربی
انداز میں جواب دیا تھا. میں نے سوچا کہ سلیم
احمد صاحب نے اپنے مضمون " سر سید' ریل گاڑی اور کوکا کولا" میں کیا خوب کہا ہے کہ مشرق
پہ مغرب حاوی ہو رہی ہے اور ہمارا دوبارہ
سے مشرقی بننے میں خدا ہی حافظ رہے. بہرحال میرا دل ٹوٹ گیا اور میں نے بہت کچھ
کہنا چاہا کہ میرؔ کو بھی تو عشق میں غم کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور اس سے انہوں
نے کیا کیا تخلیق نہیں کیا' لیکن خیر ایسے موقعوں پہ ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں .
اب ہم محبوبہ سے نفرت تو نہیں کرسکتے تھے لیکن ہمیں غصہ ضرور آیا مگر ایسے حالات
میں بھی میرؔ نے ہی سہارا دیا کہ:
"اقرار میں کہاں ہے انکار کی سی خوبی
ہوتا ہے شوق غالب
اس کی نہیں نہیں پر"
لہذا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر میرؔ کی یہ شاعری نہیں ہوتی تو شاید میں معشوق سے
بدتمیزی کرتا یا پھر احتجاج کے طور پر اپنے نبض کاٹ دیتا. لہذا میں غالب اور میر
کا تہ دل سے مشکور ہوں کہ اس کھٹن مرحلے میں بھی میرا ساتھ دیا اور محبوب کو برا
بھلا کہنے کے بجائے مجھے اس کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئےاسے قبول کرنے کی تلقین
کی۔
بعض خواتین و
حضرات کو اس لیے غالبؔ اور میرؔ کی شاعری سے اختلاف ہے کیونکہ ان کا ماننا یہ
ہے کہ انکی شاعری میں جنسی نا آسودگی کا اظہار ہے. مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ لوگ
ایسی باتیں کیسے کر سکتے ہیں کیونکہ میں بھی غالب اور میر کی شاعری پڑھنے کی سعی
کرتا ہوں اور ان کی شاعری میں اتنا کھو جاتا ہوں کہ جنسی نا
آسودگی تو دور کی بات'میں سانس لینا بھی بھول جاتا ہوں. یہ شاعری پڑھنے سے میرے
فکر و خیال اور تخلیقی صلاحیتوں میں ضرور اضافہ ہوتا ہے اور میں بے مقصد کام کرنے
کے بجائے جہاد بالنفس کرکے خود کی اصلاح کرنے کی کوشش کرتا ہوں. جس طرح محمد حسن
عسکری نے اپنے مضمون " عشق اور
زندگی" میں میر دردؔکیشعر کا حوالہ دیا ہے:
(ورق
الٹائیے)
"دردؔ ہم اس کو تو سمجھائیں گے پر
اپنے تئیں آپ بھی سمجھائے گا"
اب اس شعر کی ہر طرح سے تشریح کی جا سکتی ہے. مجاہد اور
اصلاح کرنے والے شخصیات شاید اسے شہوانی خواہش سمجھیں مگر مجھے تواس میں واضح طور
پر صبر اور جہاد بالنفس کی تلقین نظر آتی ہے. شاید جہاد میں تلوارلےکے جانے والوں کو پہلے ایسے اشعار سے اپنے ذہنوں
کو سیراب کرنا چاہیے تاکہ شاید انکا ارادہ
بدل جائے اور وو خود کی اصلاح کرنے کو غنیمت سمجھیں-
انتظارحسین صاحب نے اپنے مضمون "ادب اور تقاضے "
میں اس عنوان پر بہت عمدہ تبصرہ کیا ہے
اور ایک جگہ حالیؔ اور میرؔ کی شاعری کا موازنہ کرتے ہوے کہتے ہیں کہ حالیؔ
جیسے شاعروں کی آواز سہمے ہوے آدمی کی آواز ہے جبکہ میرؔ اپنے تجربے سے لکھتے ہیں
اور کچھ اس انداز میں لکھتے ہیں کہ قاری بھی ایک چیلینج جان کر عشق کرنے کی تمنا کرنے لگتا ہے۔میں انتظار صاحب کی
اس بات کے ساتھ بلا جھجھک اتفاق کرتا ہوں کیونکہ کچھ لوگ مذہب سے لیکر ادب تک ' ہر
چیز کو خوف کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور دوسروں پر بھی خوف طاری کر دیتے ہیں. یہاں تک کہ خدا کا بھی اایک
خوفناک نقشہ پیش کرتے ہیں اور کئی لوگوں کو جہاد بالسیف پر آمادہ کردیتے ہیں. اب
ایسی ذہنیت کے لوگ میرؔکی عاشقی اور غالب کی شاعری کو تو ضررو برا بھلا کہیں گے.
غالبؔ کے عشق کا یہ عالم تھا کہ خدا سے ایک دوست کی طرح بے تکلفی سے بات کرتے تھے.
جیسا کہ:
پکڑے جاتے ہیں فرشتے کے لکھ پر ناحق"
آدمی کوئی ہمارا دم
تحریر بھی تھا "
اب جہاد کرنے والوں کو اس کا مطلب سمجھ میں نہیں آئے گا
کیونکہ وہ عشق کے بجاے خوف کی فضا میں جی رہے ہیں اور وہ فتو ٰی جاری کریں گے کہ
یہ گستاخِ خدا ہے اور سڑکوں کو بند کرکے مکان جلاکے خوب جہاد کریں گے۔ اسی لئے ہی
تو سلیم احمد نے اس حوالے سے کہا ہے کہ
عشقیہ شاعری پہ اعتراض کرنے والے بزرگ معاشرے کو پابند بنانا چاہتے ہیں' بلکہ میں
تو کہوں گا کہ معاشرے کو بگاڑ بھی رہے ہیں۔
میں اختتام اس بات سے کروں گا کہ ہمارے سامنے دونوں راستے
کھلے ہیں اور ہمیں یہ آزادی حاصل ہے کہ ہم تلوار اٹھایں یا قلم . ہمیں سوچنا یہ چاہےکہ ہم مذہب، قومیت یا قوم پرستی کے نام پر کسی دوسرے
انسان کو کوئی اذیت دینے یا قتل کرنے کے بجائے اگر غالبؔ اور میرؔ جیسے شعرا کو
پڑھیں تو شاید ہمیں بھی فائدہ ہوگا اور ہم دوسروں کے دکھ سکھ کا احساس رکھیں گے
اور معاشرے کو کچھ اچھا دے سکیں گے. ان گزارشات پر اگر کوئی واحد بندہ بھی عمل کرے
تو فخر کی بات ہوگی ورنہ میر کی طرح ہم بھی دنیا والوں کو نیک دعاوَں کے علاوہ کیا
دے سکتے ہیں کہ:
فقیرانہ آئےصدا کر
چلے"
کہ میاں
خوش رہو، ہم دعا کر چلے"
No comments:
Post a Comment