" ہم پرورشِ
لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے
رقم کرتے رہیں گے"
مرزا محمد ہادی رسوا کی تصنیف "امراؤجان ادا"پڑھ
کر ایک دم سے میرے آغوشِ سوچ و بچار میں فیض
احمد فیضؔ کی یہ شعر گردش کرنے لگتی ہے۔ اگرچہ مرزا محمد ہادی صاحب نے یہ ناول نصیحت
اور اصلاح کی غرض سے لکھا لیکن آج کے زمانے میں یہ کہانی پڑھتے ہوئے قارئیں اس کے واقعات و
کردار کی گہرائی میں اتنا ڈھوب جاتے
ہیں کہ ان سے ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔ مرزا صاحب کو شاید لکھتے ہوئے اس بات کا
اتنا اندازہ نہ ہو کہ ہمارے دور تک لوگ اس کہانی سے رابطہ رکھیں گے لیکن آج یہ ہمارے لئے اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ اس وقت
تھا لیکن شاید اس کا ادراک الگ ہوگیا ہے۔اس کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ اس کتاب میں
جو کہانی بتائی گئی ہے'وہ دراصل ہم سب کی
ہی کہانی ہے اور ہم بھی کسی نہ کسی طرح خود کو اس کہانی کا حصہ بنالیتے ہیں۔ غرض
یہ کہ اصلی زندگی میں یا تو ہم خود اپنی ذات میںیا ہمارا کوئی عزیز امراؤجان کا
کردار ادا کر رہے ہیں یا پھر اس کہانی کےکسی اور کردار کی مانند حیات کے پل
کاٹ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ جو حالات اس کہانی میں بتائے گئے ہیں' کیا ہم ان سے آشنا
نہیں اور کیا وہ سب واقعات ہمارے زمانے کی عکاسی نہیں کرتے؟ علاوہ ازیں اس کہانی میں مرزا محمد ہادی نے
سماجی اور معاشرتی برائیوں کو بھی بہت کھل
کے بیان کیا ہے اور یہ انسانی فطرت ہے کہ ہم برائی کو مسترد کرتے ہیں اور جس کے
ساتھ برا ہوتا ہے اس کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ مرزا صاحب نے غیر دانستہ
طور پہ ہم سب کی دل کی بات بتائی ہے جس کی وجہ سے ہمدردی کا ابھرنا لازمی ہوجاتا
ہے۔اس کی سادہ مثال وہ تمام فلمیں ہیں جن کے اختتام تک ہم اسکرین کا سامنا نہیں چھوڑتے کیونکہ فلم
کا مرکزی کردار یا ہیرو آخر میں آکر اپنے
ساتھ ہوئے سارے ظلموں کا بدلہ لیتا ہے اور ہمارے اندر ہی اندر مسرت پھوٹنے لگتی ہے کیونکہ ہمیں ان سے ہمدردی
ہوجاتی ہے۔
اس کہانی میں امراؤ جان کے گھر
کےاُجھڑنے کا سماں بتایا گیا ہے جو کہ
ہمارے آنکھوں کے سامنے بھی روز ہوتا ہے۔ کہانی
کے شروع میں امراؤ جان کے بچپن کی جو منظر کشی کی گئی ہے وہ بہت ہی پرُ کشش ہے
اور اس سے ہمیں بھی اپنے بچپن کی یاد آتی ہے۔ ماضی کی یہ یاد جسے انگریزی میں 'نوسٹیلجیا ' کہتے ہیں بہت ہی
شیریں ہوتی ہے مگر اس میں اس سےزیادہ تلخی
بھیہوتی ہے کیونکہ گزرے لمحات سے شدید احساسات جڑےہوتے ہیں جن کو ہم کسی بھی طرح
دہرا نہیں سکتے۔ بقو لِ اختر انصاری :
اس حقیقت کو پیشِ نظر
رکھتے ہوئے کہ ماضی کے ساتھ ہمارے احساسات بہت گہرے سے منسلک ہوتے ہیں اگر ہم امراؤ جان کی کردار کا جائزہ لیں تو اس کے
ساتھ ہمدردی پیدا نہ ہونا انسانی فطرت کے
برعکس ہوگا۔ اتنے خوش و خرم زندگی سے اٹھا
کر اسے اسے اغوا کیا جاتا ہے اور وہ بھی محض
اس سبب کہ اس کے ابا حضور نے دلاور خان کے خلاف سچی گواہی دی تھی۔ سچائی کے بدلے
میں ظلم کا سامنا کرنا تو ہمارے زمانے کی
بھی ایک برملا حقیقت ہے۔ کیا اس کہانی کو پڑھ کر ہمارے ذہن میں شاہ زیب
خان قتل کیس نہیں آتا جو کراچی میں پیش آیا
اور چونکہ مجرم کے والدیں مالی لحاظ سے اچھے ہیں تو قاتل آج بھی آزاد ہے۔
اور یہی صورتِ حال لاہوری شہری زین کا بھی ہوا جسے ایک وزیر کے بیٹے نے گولی مار
دیا لیکن حکومت اور عدالت آج تک خاموش ہے۔
ان مثالوں کا مقصد یہ ہے کہ مرزا
محمد ہادی نے اس کہانی کے واقعات تنقید کی غرص سے کچھ اس انداز سے لکھا ہے کہ وہ ہمارے روزمرہ سے جڑ جاتے
ہیں اور ہم نہ چاہتے ہوئے بھی ان کرداروں اور حالات سے واسطہ پیدا کرتے ہیں اور ہمدردی کا احساس خود بہ خود ہمارے دلوں میں
جنم لیتی ہے۔
اس کہانی میں ایک اور بات
جس کی وجہ سے آج ہمارے دلوں میں ہمدردی پیدا ہوتی ہے وہ ہ لڑکیوں کی حالاتِ زندگی اور ہمارے
معاشرے میں ان سے غیر مساوی سلوک کا بیان ہے۔ اگر میں اپنے گھر کی ہی مثال لے لوں
تو میں اور میرا بھائی بڑے شہروں کی بڑی جامعات میں تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ
ہماری اکلوتی بہن گاؤں میں ہی ہوتی ہیں اور اب ان کی شادی بھی ہوگئی ہے۔ ہمارے
ایک تعلیمی سال پہ ہماری بہن کی پوری زندگی سے زیادہ خرچ ہوتا ہے کیونکہ انہیں بس
جہیز دیا گیا اور رخصتی کروائی گئی جبکہ ہم
تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے بہت اچھا تجربہ حاصل کررہے ہیں۔ یہی کچھ اس
کہانی کے مرکزی کردار امراؤ جان کے ساتھ بھی ہوتا ہے- بچپن میں ہی اس کی شادی
ہوجاتی ہے اور یہی اس کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے جو کہ مرزا محمد ہادی صاحب نے
کچھ یوں بیان کیا ہے: "غرض کہ میں اپنی حالت میں خوش تھی اور کیوں نہ خوش
ہوتی' کیوں کہ اس سے بہتر اور کوئی حالت میرے خیال میں نہیں آسکتی تھی- مجھے اپنی
تمام آرزوئیں بہت ہی جلد پوری ہوتی ہوئی
معلوم ہوتی تھیں"۔ یہ بات ممکن ہے کہ اُس وقت اس جملے میں کوئی اتنی خاص بات نہ ہو لیکن ہمارے
لئے یہ بہت بڑی بات ہے۔ گویا زندگی کی دوسری تمام مسرتیں اور اپنی مرضی سے جینا تو
شاید ہم اپنی بہنوں اور بیٹیوں کیلَے نا گزیر سمجھتے ہیں۔ اس کہانی کے کرداروں سے
خواتیں کو ہمدردی تو ہوگی ہی کیونکہ یہ ہمارے معاشرے کی ہر خاتون کی بھی ایک
سرگزشت ہے بلکہ ہر با شعور مرد کو بھی اس
سے ایک جھٹکا ملتا ہے اور ہم اپنے نظامِ پدری کے متعلق نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ موجودہ نظام کے اندر رہتے
ہوئے شاید ہم سب کچھ تبدیل نہیں کرسکتے مگر ان نگارشات کو پڑھ کر ہم میں احساس ضرور پیدا ہو جاتا ہے اور یہ
احساس کردار و واقعات سے ہمدردی پیدا کئے بغیر جنم نہیں لے سکتا۔
مرزا محمد کی اس تصنیف کا
سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ انھوں نے بھی اپنے زمانے کے حساب سے طوائف کی دل کھول کر
مذمت کی ہے اور رنڈی خانوں کو تنقید کا
نشانہ بنایا ہے۔ اس میں دلچسب بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کردار وں کو کچھ اس
انداز سے پیش کیا ہے کہ ان کی مخالفت کے بجائے قاری کو ان سے ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ بات قابلِ غور
ہے کہ مصنف نے اتنے پیچیدہ اور حساس معاملے کو
لوگوں کے سامنے لایا ہے چاہے اس کا مقصد کچھ بھی ہو لیکن اس بات سے انکار
نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے حقیقت پسندی سے کام لیا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ رنڈی بننا کوئی انتخاب نہیں
بلکہ زیادہ تر لوگوں کی مجبوری ہوتی ہے۔ اسلام آباد میں حال ہی میں کئی نوجوان لڑکیوں کو اغوا کیے جانے کا مسئلہ
خبروں کی سرخی بنی ہوئی ہے۔ یہی کچھ اس
کہانی کے کردار امراؤجان کے ساتھ بھی ہوتا ہے جس کے بعد وہ رنڈی خانے کو اپنا گھر
سمجھے لگتی ہے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اور چارہ
ہی نہیں ہوتا۔ اب اس مجبوری کو دیکھ کر تو ہر سنگ دل کے سینے میں بھی
ہمدردی پیدا ہوجائے۔
اس کہانی میں رنڈی خانوں
کی زندگی بہت دلکش انداز میں بتایا گیا ہے جو کہ ہمارے دقیانوسی تصورات سے کافی مختلف ہے۔ اکثر ہمارے ذہنوں میں
طوائف کیلئے جو کچھ برا آسکتا ہے آجاتا ہے مگر اس تحریر کےپڑھنے کے بعد ہم ضرور یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ کیا
وہ انسان نہیں ہیں؟ کیا ان کے احساسات نہیں ہوتے؟ مرزا محمدہادی نے امراؤ جان کو اپنے
زمانے کی مشہور شاعرہ کے طور پر
بھی پیش کیا ہے اور شعرا سے زیادہ جذبات
اور تخیلات کس کے ہو سکتے ہیں؟ طوائف پر اتنی تنقید تو کرتے ہیں لیکن اس کہانی میں بھی یہ بتایا گیا
ہے کہ نواب اور خان بھی رنڈی خانوں کے چکر کاٹنے سے اجتناب نہیں کرتے ہیں۔ اس حقیقت کو
غلام عباس نے "آنندی" میں بھی بیان کیا ہے کہ کیسے ہم زنان
بازاری کو اپنے معاشرے سے الگ کر دیتے ہیں لیکن پھر خود دوڑے ان کے قریب جاتے ہیں۔
اس کہانی میں بھی جب امراؤ جان ایک دن گھر لوٹتی ہے تو اس کا وہی چھوٹا بھائی اسے
گھر میں قبول نہیں کرتا جسے بچپن میں وہ
سب کچھ سکھایا کرتی تھی۔لہذا یہ جو طوائف کی بدنامگی ہے یہ ہمارے دل میں ان کیلئے
ہمدردی پیدا کرتی ہے کیونکہ ہم حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے۔ لہذا خواہ مخواہ جو اس تبقے پرالزام لگایا جاتا ہے وہ ہمیں ان کے
قریب کردیتا ہے کیونکہ یہ ان کے ساتھ نا انصافی ہے اور جن کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہو' ان کے ساتھ
ہمدردی کا رشتہ بننا فطری ہے۔
المختصر یہ کہ مصنف
کا اس کہانی کا زیرِ قلم کرنے کا مقصد شاید کچھ اور ہو لیکن
اس کو پڑھنے کے بعد ہر قاری کے دل میں ہمدردی کا احساس ضرور پیدا ہوتا ہے کیونکہ
ہم ان حالات کو اپنے ارد گرد رونما ہوتے
ہوئے دیکھتے ہیں اور ہمارے دل میں وہی درد پیدا ہوجاتا ہے جو اصلی زندگی میں ہوتا ہے۔ بہر حال
مجھے یہ کہانی بہت اچھی لگی اور اس
کو پڑھنے کے بعد ان کرداروں سے مجھے
ہمدردی ہوگئی اور ان کے بارے میں خود کی اصلاح
کا اور ایک الگ زاوئیے سے ان کے
بارے میں اپنی سوچ بنانے کا موقعہ ملا۔ یہ
شاید مرزا محمد ہادی صاحب کے مقصد کے خلاف ہو لیکن میں بہر صورت مرزا محمد ہادی کا
اس تحریر کیلئے بہت مشکور ہوں۔
No comments:
Post a Comment