Wednesday, September 21, 2016

تقسیمِ زن

تحریر: عبدالواحد خان
تقسیم زن
دوپہر کا وقت ہے اور کڑی دھوپ میں لوگ ریلوے اسٹیشن پہ ریل کے آنے کا منتظر ہیں اور جیسے ہی سیٹھی کی آواز بجتی ہے سب متوجہ ہوکے ریل کی طرف لپکتے ہیں۔ ریل گاڑی سے کچھ لوگ زندہ نکلتے ہیں' کئی زخم سے دوچار خون میں لتھڑے ہوئے اپنی عزیزوں کے سہارے پہ باہر آرہے ہیں اور باقی لوگوں نے ریل کے اس خونخوار سفر میں ہی زندگی کا سفر بھی طے کرلیاہے۔  المیہ یہ ہے کہ اس افراتفری اور نفسانفسی کے عالم میں ان لاشوں کو گاڑی سے اتارنے والا کوئی نہیں ہے اور آگست کے اس گرمی میں اانسانی گوشت سے جو بدبو آرہی ہے کہ اللہ توبہ! چونکہ ادھر کے سواریوں کو اسی ریل گاڑی میں جانا تھا لہذا انہوں نے ان تمام مردہ عورتوں' مردوں اور بچوں کو وہاں سے اٹھا کر اسٹیشن کے قریب ایک ڈھیر لگادیا۔ ابھی چمہ گوئیاں چل رہی تھی  کہ ان کو آگ لگاتے ہیں کہ امیر صاحب ریل گاڑی سے اترے اور گرج دار آواز میں بولے: " کوئی آگ نہیں لگائے گا' چلو ان کو یہاں دفناتے ہیں"۔ یہ کہ کر انہوں نے کچھ نوجوانوں کو اشارہ کیا جو ابھی گاڑی سے اترے تھے اور جس کے ہاتھ میں جو آیا اس کو استعمال کر تے ہوئے انہوں نے ایک بڑا گھڈا کھودا اور تمام لاشوں کو سپردِ خاک کیا۔ آخر میں امیر صاحب نے اجتماعی طور  پہ ایک دو آیتیں پڑھکر مرحومین کیلئے جنت کی دٔعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان لوگوں کی قربانی رہتی دنیا تک یاد کی جائے گی۔ وہ مزید اس بات کو آگے بڑھا کر خطبے کی تیاری کرہے ہیں کہ دلاور خان نے مداخلت کرتے ہوئے کہا : " حضور! ہم کو چلنا چاہئے۔ ادھر لوگ تمہارا انتظار کرتا ہے"۔ دلاور خان رضاکار گروپ کے صدر ہیں اور انہیں ضصوصی ہدایات ملی تھی کہ امیر صاحب کے رہن سہن کی ذمہ داری درست طریقے سے نبھالیں۔ دو تین رضاکار لڑکے' جو اس کے ساتھ آئے تھے' آگے بڑھ کر امیر صاحب کے سامان اٹھاکر چلنے لگے تو امیر صاحب نے ایک خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لڑکوں کو ہدایت دی کہ ان سے سامان لے لیں۔ ایک لڑکے نے محترمہ کے ہاتھ سے سامان اٹھالیا تو امیر صاحب ان صاحبہ سے مخاطب ہوئے: " چلئے بیگم' اپنے نئے گھر کی راہ لیں"۔ باقی سب لوگ لفظ "بیگم" سن کے چونک گئے کیونکہ کہاں ۵۰ سالہ بوڑھا امیر صاحب جس کے دھاڑی کے بال سفید ہونے کے دائرے میں شامل ہوگئے ہیں اور کہاں ۱۶ سالہ دھریک بدن ' چست و چالاک بیگم۔ جس لڑکے نے بیگم کا سامان لیا تھا اس نے دوسرے لڑکے کو گھسیٹ کر ایک طرف لاکے دھیمی آواز میں مخاطب ہوا: " امیر صاحب نے کافی حد تک جہاد کیا ہے لیکن اس عمر میں آکے پرہیز گاری کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا اور شاید اسی لئے تو کہتے ہیں کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے"۔ دوسرے لڑکے نے امیر صاحب کا مذاق بنتے دیکھا تو غصیلی نظروں سے اسے دیکھا لیکن اس سے رہا نہیں گیا اور وہ مسکراتے مسکراتے قہقہے لگانے لگا۔ ابھی وہ سب چلتے ہی بنے تھے کہ ایک بوڑھے شخص نے انتہائی عاجزی سے عرض کیا: " امیر صاحب'آپ نے تو وعدہ کیا تھا کہ ہمیں رہائش مہیا کروائیں گے' اب ہمیں یہاں چھوڑ کے کہاں جا رہے ہیں؟ " باقی سب لوگوں نے ہاں میں ہاں ملائی اور امیر صاحب کو دیکھنے لگے کہ کوئی جواب ملے لیکن امیر صاحب ادھر ادھر تکتے رہے۔
دلاور خان: امیر صاحب اسی لئے تو دفتر جارہا ہے کہ تم لوگوں کا رہائش کا مثلہ حل کریں۔
امیر صاحب: جی بالکل! میں بہت جلد سب کیلئے رہائش کا انتظام کروں گا۔
امیر صاحب نے تھوڑے آگے آکر دلاور خان سے کہا: " ان کا بھی کچھ بندوبست کرلو۔ ایک دو کمرے ہی ملیں تو کافی ہیں۔ صرف چند سو لوگ ہی تو ہیں ۔ دلاور نے سر خم کیا اور کہا کہ وہ کچھ کرنے کی کوشش کرے گا۔
لاہور کی گلیوں میں ایک عجیب خوف و وحشت اور بیزاری کا ماحول چھایا ہوا ہے اور اس شہر میں اب ہر ایک فرد کیلئے اجنبی پن کے احساسات نظر آتے ہیں۔ باہر سے آنے ولے لوگ اس پریشانی میں گرفتار ہیں کہ سر چھپانے کیلئے ٹھکانہ کہاں ملے گا اور جن لوگوں کو اب اس شہر کو خیرباد کہنا ہے وہ ایک معصوم بچے کی مانند اس علاقے کو گلے لگائے بیٹھے ہیں حالانکہ انہیں اچھی طرح سے معلوم ہی کہ انہیں کسی بھی حالت میں وہاں سے نکالا جائے گا۔ عجیب زدی لوگ ہیں کہ شہر چھوڑنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے ہیں حالانکہ انہیں بخوبی علم ہے کہ اب یہ شہر ان کا نہیں رہا اور یہاں سے رخصت نہ ہونے کی صورت میں نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے۔ سب اس بات سے حیران اور  پریشاں ہیں کہ سرحدوں کے دونوں اطراف میں پنجاب ہی ہے تو ایک پنجاب سے اپنے عزیز و اقارب اور گھروں کو چھوڑ کر چند ہی میل دور دوسرے پنجاب جانے کا کیا تک بنتا ہے؟ لوگ ہر راہ گزر کو دیکھ کے یہ اندازہ لگانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں کہ سامنے سے گزرنے والا شخص ان کا ہمراہ ہے یا پھر ستمِ راہ۔
امیر  صاحب دفتر پہنچتے ہیں تو سب رضاکار خوش آمدید کہنے کیلئے ایک بڑی لائن میں کھڑے ہیں. چونکہ وہاں کوئی خاتون نہیں ہے تو امیر صاحب کو ایک بےچینی سی ہونے لگتی ہے کہ اتنے سارے مرد ان کی بیگم پر نظرڈالیں گے 'لہذا انہوں نے حکم دیا "سب پیچھے مڑو" اور سب پریشانی کے عالم میں حکم کی پیروی کرنے لگے لیکن کسی کو بھی سمجھ نہیں آیا کہ ایسا حکم کیوں ملا. امیر صاحب یہ موقع غنیمت جان کے بیگم کا ہاتھ پکڑتے ہیںاور برق کی سیرفتار سے دفتر کے اندر گھسجاتے ہیں.الله کا شکر ہے کہ دفتر کے اندر بیگم کے لئے پردے کا خاص اہتمام کیا گیا ہے لہذا بیگم صاحبہ پردے کے پیچھے جاکے بیٹھ جاتی ہیں. امیر صاحب باہر نکلتے ہیں اور ہر رضاکار کی سر پر ہاتھ رکھ کر ایک ایک کرکے دعائیں دیتے ہیں. رضاکار گروپ کے بانی مولانا عالم لاہوری بھی آجاتے ہیں اور امیر صاحب کو دفتر میں بیٹھا کے چائےمنگواتے ہیں۔
خیر و خیریت دریافت کرنے کے بعد عالم صاحب امیر صاحب کو ان کے گھر کی چابی تھماتے ہوۓ کہتے ہیں " یہ آپ کے گھر کی چابی ہے. ہم نے خوب دیکھ کے کینٹ  کے پرامن ماحول میں آپ کیلیے گھر چنا ہے ". " شکریہ عالم صاحب! ہمیں آپ کی مہمان نوازی پہ فخر ہے. ویسے میں نے خط میں لکھا تھا کہ مجھے  شہر کے قریب ایک اوطاق بھی چاہئے جہاں میں اپنے مریدوں سے مل سکوں اور کچھ دین کی باتیں کرسکوں." امیر صاحب نے کہا۔
اتنے میں دلاور نے مداخلت کرتے ہوئے  عرض کیا " ایک بہت خوبصورت   بنگلہ 'ہمارا' نظر میںہے مگر اس میں تھوڑا سا 'مثالا' ہے جس کا میں آپ کو بتادوں گا"۔
امیر صاحب نے کہا " ہمارے ہی ملک میں کیا ایسا مسئلہ ہے ہمارے لئے؟ جتنی جلدی ہوسکے کچھ حل نکال کے مجھے بتا دو-  ابھی ہم تھک گئے ہیں' ہمیں ہمارا ٹھکانہ دیکھائیں"۔
دلاور: ویسے باقی لوگوں کا کیا کرنا ہے؟
امیر صاحب: انگریزوں کے کوئی دو کورٹر ان کو دیدو' خود ہی ایڈجسٹ کرلیں گے. باقی الله مالک ہے-."
دلاور پھر امیر صاحب اور ان کے بیگم کو لیکر ان کے نئے گھر جاتے ہیں. گھر دونوں میاں بیوی کو بہت پسند آتا ہے. امیر صاحب نے برآمدا اور کھلی چاردیواری دیکھ کے خوشی سے بیگم کی کان میں سرگوشی کی " بچوں کے کھیلنے کیلئے کھلی جگہ ہے' اب ذرا جلدی کریں آپ"-بیگم نے شرماتے ہوئے کہا " امیر صاحب' تیزی تو آپ نے دکھانی ہے". دونوں ہنستے مسکراتے ہونے نئے گھر میں داخل ہوئے۔
اگلے روز دفتر میں آتے ہی امیر صاحب دلاور خان سےاوطاق کے بارے میں پوچھا اور دلاور خان نے کچھ یوں جواب دیا: "حضور جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ ایک باہوت ہی عمدہ بنگلہ ہے لیکن اس بنگلہ میں ایک سِکھ لڑکی رہتی ہے جو کہ کسی بھی حال میں وہ بنگلہ چھوڑنے پہ آمادہ نہیں ہے۔
امیر صاحب: یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ کیا اس کو علم نہیں کہ اب اس ملک میں وہی چلےگا جو ہم چاہیں گے؟ ہم نے ان کے لئے وہ ملک چھوڑ دیا لہذا اب ہمیں یہاں چین سے رہنے دیں۔
دلاور : "حضور ہم نے باہوت کوشش کیا لیکن اب ایک زنانہ پہ ہم ہاتھ تو نہیں اٹھا سکتا نا"۔
امیر صاحب: " وہ  خاتون کیوں نہیں جانا چاہ رہی ہیں؟ ان کے خاندان والے کہاں ہیں؟"
دلاور : اصل میں وہ کچھ مہینے پہلے اپنے خاوند کے ساتھ یہاں رہنے آئی تھی اور ان کے ساتھ کوئی اور نہیں تھا. لیکن جیسے ہی آزادی کے نعرے بلند ہوئے تو میں نے اپنے آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اس کے خاوند کو ہمارے لڑکوں نے ہلاک کردیا تھا کیونکہ وہ شہر چھوڑنے پہ راضی نہیں تھا. ہم نے خود اس کی لاش کو دوسرے مردوں کے ساتھ جلایا تھا لیکن یہ محترمہ مانتی ہی نہیں۔
امیر صاحب: وہ کیا کہتی ہے؟ اس کا کیا حل ہوسکتا ہے؟
دلاور: وہ تو اب تک اسی بات پہ اٹکی ہوئی ہے کہ اسکا خاوند نریندر واپس آ یگا, اور اس کا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے . ہم نے کافی سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ کہیں نہیں جارہی اور کہتی ہے کہ وہ کہیں نہیں جاسکتی. ہم نے تو یہ تک کہا کہ باہوت حسین ہے اور جوان بھی ہے تو اسلام قبول کرکے کسی سے شادی کرلے اور یہاں رہے اگر اتنا ہی رہنا ہے تو۔
امیر صاحب: کل آپ ہمیں لیکے وہاں چلیں' ہم برخوردار کو سمجھائیں گے۔
دوسرے دن سب سے پہلے امیر صاحب دلاور خان کے ہمراہ اس خاتون کے گھر پہنچے. دروازے پر آدھا گھنٹے تک دستک دینے کے باوجود بھی کسی نے دروازہ نہیں کھولا تو دلاور خان نے پیچھے سے ایک کھڑکی کو زور سے جھٹکا دیکر کھول دیا اور اندر سے آکر امیر صاحب کیلئے دروازہ کھولا۔
اندر داخل ہوتے ہی امیر صاحب نے ادھر اُدھر جھانکا لیکن انھیں کمرے میں کوئی نظر نہیں آیا. دلاور نے بتی جلائی تو انہوں نے دیکھا کہ وہ کمرے کے ایک کونے میں سوئی ہوئی نظر آئی. وہ دوپٹے کے آدھا حصے کو منہ میں دبائے اس وہم کی حالت میں دروازے کی طرف منہ کرکے  سورہی تھی کہ دوپٹے کا دوسرا حصہ اس کے ٹانگوں کے بیچ میں پھنسا ہوا تھا۔. امیر صاحبنے جیسے ہی اس کی خوبصورتی اور جوانیدیکھی تو بلا اختیار ان کے منہ سے " ماشااللہ" نکلا اور وہ اس سے نظریں ہی نہیں ہٹا پا رہے تھے۔
دلاور خان نے امیر صاحب کی یہ حالت دیکھ کر ان کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کئی  بار کھانسا لیکن امیر صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔
دلاور خان نے آخرکار لاچارگی کی حالت میں عرض کیا: " حضور میں ان کو جگادوں؟"
امیر صاحب تسبیح کے دانے گنتے ہوئے اس عورت کو گھور رہے ہیں اور کافی دیر تک خاموش رہنے کے بعد کہتے ہیں: " دلاور' الله کی قدرت دیکھو. برصغیر پہ قبضے کا خواب کیا تھا' ہمیں تو یہ برصغیر چاہئے. دہلی کی ہریالی دیکھو، امرتسر کی نرمی دیکھو' لاہور اتنا ہی ابھرا ہوا اور دلکش اور کراچی کا حال تو اپر والا ہی جانے۔
دلاور خان امیر صاحب کی نیت کی یہ خرابی دیکھ کر چونک گئے اور "جی حضور" پر ہی اکتفا کیا۔
تھوڑی دیرکی خاموشی کے بعد دلاور نے امیر صاحب کو یاد دلایا کہ دفتر میں کام بہت ہے اور سرحد کے اس پار سے وہ تمام لوگ آرہے ہیں جن کو امیر صاحب نے ہجرت پہ راضی کیا تھا' لہذا ان کو چلنا چاہئے۔
امیر صاحب کو مجبورا جانا پڑا حالانکہ ان کا جانے کا بالکل بھی ارادہ نہیں تھا. دروازے سے نکلتے ہی وہ دلاور سے مخاطب ہوئے " دلاور بیٹا، یہی ہمارا ااوطاق ہے' کسی کو بھی فلحال اس بات کا علم نہیں ہونا چاہے اور مجھے تم پہ بھروسہ ہے۔
پورا دن سب کام میں مگن  رہتے ہیں. شہر میں  لوگوں کے  آمد و رفت  کا سلسلہ جاری ہے. امیرصاحب آنے  والوں کو قرانی آیات اور احادیث سے صبر و تلقین کی ہدایت دے رہے ہیں. رضاکار گھر گھر جاکے دیکھ رہے ہیں کہ کونسا گھر خالی کیا جاسکتا ہے اور کونسے گھر میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اب یہاں کے نہیں رہے. جگہ جگہ خون ریزی کا سماں بھی دیکھنے کو ملتا ہے اور کیوں نہ ملے کیونکہ گھر چھوڑ کے جانا کتنا آسان ہوتا ہے. جگہ جگہ عورتوں اور بچوں کے چیخنے  کی آوازیں آتی ہیں اور ہر دن کے آخر میں   رضاکاردفتر آکے اپنے کامیابی کی داستانیں سناتے ہیں کہ کس نے کتنے شکار  کیے۔
شام ہوتے ہی امیر صاحب دلاور سے کہتے ہیں کہ انھیں اوطاق جانا ہے اور دلاور سے معذرت بھی کرتے ہیں کہ ایک دفع انکو شہر کے راستوں کا پتا چلے تو وہ پھر ان کو تکلیف نہیں  دینگے.دلاور مسکرا کے کہتے ہیں " آپ کی خدمت ہمارے لیے خوش قسمتی کی بات ہے۔"
ان خاتون کے گھر کے دروازے پہ پہنچ کے امیر صاحب دھاڑی  میں کنگھی پھیرتے ہیں' مکہ کے خصوصی عطر لگاتے ہیں اورچہرے پہ مسکراہٹ سجانےکے بعد دستک دیتے ہیں. دروازے پر لگاتار دستک کے باوجود اندر سے کوئی جواب نہیں  آتا. دلاور پھر سے کھڑکی پہ کھٹکھٹاتا ہے تو اندر سے آواز آتی ہے " کون ہے؟ نریندر ؟ " دلاور جواب دیتے ہیں " میں دلاور  ہوں،رضاکار گروپ کا کپتان"- کھڑکی کےقریب سے آواز آتی ہے " کیوں آئے ہو؟ نریندر کو ساتھ لائے ہو کیا؟" دلاور کہتے ہیں کہ نہیں امیر صاحب آئے ہوئے ہیں اور وہ بات کرنا چاہتے ہیں. امیر صاحب کا نام سن کے وہ پورے امید کے ساتھ دروازہ کھولتی ہے کہ اب تو کوئی نہ کوئی حل نکل آیگا اور اس کو اسکا نریندر مل  جاےگا۔
اندر داخل ہوتے ہی امیر صاحب اپنا تعارف  اس طرح سے کرتے ہیں " برخوردار' مجھے  سرحد کے اس پار امیر صاحب کے نام سے یاد کیا جاتا تھا سو یہاں بھیہم امیر صاحب ہی ہیں. دلاور نے مھے بتایا کہ آپ گھر چھوڑنے کیلئے راضی نہیں ہیں تو مجھے خود آنا پڑا ' لہذا آپ اپنی راہ لیں کیونکہ یہ گھر ہمیں اپنے استعمال میں لانا ہے۔
لڑکی: نہیں امیر صاحب۔یہ میرا گھر ہے' نرریندر نے پوری زندگی اسی کیلئے محنت سے کمایا اور یہ ان کے مشقت کا نتیجہ ہے ' میں یہ  کبھی نہیں چھوڑ  سکتی۔
امیر صاحب: آپ کو بٹوارے کا مطلب تو پتا ہوگا. مجھے بھی اس عمر میں گھر بار چھوڑ کے ادھر آنے کا کوئی شوق نہیں  تھا لیکن اس میں ہم سب کی فلاح ہے۔ اب آپ اگر یہ گھر نہیں چھوڑیں گی تو پتا نہیں کہ یہ لوگ تمہارے ساتھ کیا کریں۔
لڑکی: مجھے کچھ نہیں ہوگا. مجھے نہیں جاننا کسی تقسیم کے بارے میں اور جو کچھ بھی ہے وہ مسلمانوں اور ہندؤں میں ہے' ہمارا اس سے کیا لینا دینا. نریندر کا بھی یہی ماننا ہے کہ ہم اس علاقے کا ہی حصہ ہیں اور اس لیے حصہ ہیں کیونکہ ہمارے گرو نانک دیوے جی بھی اسی حصے میں پیدا ہوے تھے  اور ہم سے ہمارا پیدائشی حق کوئی نہیں چھین سکتا-
دلاور: اس کو پتا نہیں ہے کہ سکھوں نے ہمارے کتنے لوگوں کو راستے میں مار دیا ہے اور مار رہے ہیں۔
لڑکی: امیر صاحب، آپ اچھے انسان لگتے ہیں' مجھے نرریندر سے ملوا دیں. ان لوگوں نے اسکو قید میں رکھا ہے- میرا اس دنیا میں اس کے سوا کوئی نہیں۔ میرے خاندان والے سب مارے گئے ہیں یا پتہ نہیں کہاں چلے گئے۔
امیر صاحب: وہ اب واپس نہیں آیگا. میں کل آپ کو ایک ہجرت کرنے والی ٹولی کے ہمراہ روانہ کرتا ہوں' آپ چلی جائیں' وہاں پہآپ کو اپکا کوئی خیر خواہ ملےگا۔
لڑکی: میں بالکل بھی نہیں جاؤں گی. میرا اب کوئی نہیں ہے. میں نرریندر کا انتظار کرونگی- وہ ضرور آئے گا۔
امیرصاحب غصے سے دلاور کے کان میں  کہا " لگتا ہے انگلی ٹیڑھی کرنی پڑیگی. ان کے ساتھ انسانیت کبھی نہیں کرنا چاہیے. تم چلے جاو' میں ذرا دہلی سے کراچی کا ایک سفر کروں اور ہر مورچے کو قبضہ کرلوں تاکہ کل تک ہم اس گھر میں اپنے نیک کام کا آغاز کرسکیں. اور دوبارہ یاد دلا رہا ہوں کہ یہ بات کسی کو بھی نہیں پتا ہونا چاہے۔
دلاور خان: جی بہتر حضور۔ میں کل صبح  آجاؤں گا۔.
جیسے ہی دلاور جانے لگا تو امیر صاحب کو بیگم کا خیال آیا اور انہوں نے دلاور کے پیچھے آواز لگائی: " دلاور' ذرا بات تو سنو ". دلاور واپس آیا تو ان سے دھیمی آواز میں کہا " زرا بیگم کا حال پوچھتے جانا' ان کو بتانا کہ امیر صاحب دینی کاموں میں مصروف ہیں لہذا آج نہیں آینگے. اور ہاں  ان سے تالہ لینا اور دروازہ باہر سے بند کرلینا' چابی میرے پاس ہے۔
دلاور خان کے جانے کے بعد مولوی صاحب نے اپنے ارادے  کا اظہار کیا تو بیچاری لڑکی کا شلوار ابھی سے گیلا  ہوگیا  اور عزت کے خوف سے سانس رکنے لگا۔ وہ اس ارادے سے اتنی خوفزدہ ہوئی کہ وہ ڈر کے مارے وہی پہ بے ہوش ہوگئی۔
امیر صاحب نے یہ غنیمت جانا کہ بڑھاپے میں زیادہ مشقت نہیں کرنی پڑی. درجہ بہ درجہ وہ نعرے  لگاتے ہوئے برصغیر کو فتح  کرنے لگا. انہوں نے پردے کا لحاظ رکھنے کے لیے بتی بھی  بھجادیا.ابھی کراچی کے مورچے پہ نعرا بازیاں چل رہی تھی کہ لڑکی ہوش میں آگئی. چیخنے  چلانے لگی " نریندر بچاؤ ' نریندر بچاؤ' یا خدا کوئی  تو بچاؤ' الله کے واسطے چھوڑو' بگوان کی خاطر یہ نہیں کرو۔" یہ صدائیں پورے گھنٹے تک چلتی رہی لیکن نہ خدا نے اور نہبگوان نے سنا اور میاں جی کا بڑھاپا خوب سر چھڑ کر بولا۔
دوسرے دن امیر صاحب دلاور کے دستک سے اٹھے اور خود کو اس حالت میں دیکھ کر اندر سے پچھتانے لگا کہ یہ میں نے کیا کیا' اور وہ لڑکی کمرے کے ایک کونے میں بیٹھی چادر کو اپنے ارد گرد لیپٹے رو رہی تھی جبکہ اس کے کپڑے کمرے میں بکھرے ہوئے تھے. امیر صاحب نے دلاور کو منع کیا کہ وہ اندر نہ آئے. امیر صاحب نے ادھر اُدھر سے کپڑے اکھٹا کیا اور پہن کے باہر نکلتے ہی دروازہ بند کیا۔
پھر سے دن بھر امیر صاحب انہی تقریروں میں مصروف رہے اور مسلمانوں  کو صبر و تلقین کی تبلیغ کرتے رہے اور بیچ میں انھیں خیال آیا کہ اس حالت میں قرآن کی کوئی آیات پڑھنا کتنا گناہ ہے لیکن اسے مجبوراکئی آیتیں پڑھنیپڑی. شام ہوتے ہی انہوں نے دلاور کو بتایا کہ آج وہ خود  اپنے گھر جاینگے کیونکہ انھیں راستے کا پتا چل گیا ہے. اپنے گھر کے راستے میں اس سے رہا نہیں گیا اور اس نے دوبارہ اس لڑکیکے گھر کا رخ کیا. ادھر اُدھر سے ہوتے ہوئے وہ آخرکار وہاں پہنچگئے. دروازہ نہ کھلنے پر کھڑکی کا سہارا لینا پڑا جو کہ اب تک ٹوٹ گئی تھی. اندر جاکے بہت دیکھا لیکن اسے کہیں وہ لڑکی نظر نہیں  آئی. آخر کار اسے بیسمیںٹ کا راستہ نظر آیا اور وہاں جاکے دیکھا تو وہی چھپ رہی  تھی۔
پھر سے وہی بحث چلتی رہی لیکن وہ لڑکی گھر چھوڑنے پر تیار نہیں تھی. پھر سے رات  ہوگئی. چونکہ اندھیرے میں انسان کے اندر کا جانور جاگ جاتا ہے' امیر صاحب نے بھی پھر سے لطف اندوزی کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور وہ چیخیں ویسے ہی نہ کسی نے سنی اور نہ کسی نےجواب  دیا-
اگلے روز پھر سے دروازے پردستک ہوئی' امیر صاحب نے آرام سے دروازہ کھولا تو سامنے دلاور کو ہاتھ میں چاقو لیے ہوئے دیکھا. "امیرصاحب آپ یہاں؟" دلاور حیرانگی سے  بولے. امیر صاحب نے چاقو اس کے ہاتھ سے لیا اور پوچھا کہ چاقو لیکے کیا کرنا چاہ رہے تھے؟ دلاور نے بتایا کہ وہ اس لڑکی کو مارنے آیا تھا کیونکہ لوگوں کو پتا چل گیا تو بہت برا ہوگا اور کئی لوگ آج اوطاق میں امیر صاحب سے ملنے آئیں گے-
امیر صاحب نے اسے منع کیا کہ ایسا ہر گز نہ ہوگا. اس بیچاری لڑکی کو ایسے نہیں  مارسکتے. امیر صاحب نے لڑکی کو بیسمیںٹ میں رہنے کا کہا اور ساتھ ساتھ یہ تلقین بھی کی کہ اگر خدا نخواستہ کسی کو خبر ہوئی تو وہ گئی لہذا چپ چاپ وہاں بیٹھی رہے دن کے  وقت اور رات کے وقت بھلے اوپر آجائے۔
اس طرح یہ سلسہ جاری رہا. اوطاق میں دن میں دین کی باتیں اور رات میں دشمن سے لڑائی اور اسکے چیخوں سے امیر صاحب کی جیت. امیر صاحب کو اس فعل میں اتنا مزہ آرہا ہے  کہ وہ ہفتوں تک بیگم سے ملنا بھول جاتے ہیں . دلاور بیگم کیلئے کھانے پینے کا بندوبست کرتے ہیں اور روز کچھ نیا بہانہ لیکے حاضر ہوجاتے ہیں کہ امیر صاحب ادھر مصروف ہیں یا ادھر پھنسے ہوئے ہیں. امیر صاحب کی سرحد کےاس پار آنے کے بعد بیگم سے کبھی ہم بستری نہیں ہوئی ہے جبکہ سکھ لڑکی کچھ دنوں میں ماں بن رہی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ امیر صاحب اباوطاق چھوڑنے کا نام ہی نہیں لیتے۔
جب کبھی دینی کاموں سے فرصت ملتی ہے تو کچھ لمحے بیگم کے ساتھ گزارنے جاتے ہیں اور بیگم بار بار یہی شکایت کرتے ہیں کہ وہ اکیلی رہ کر اکتا جاتی ہیں اور انکو اب بچہ چاہئے جس سے ان کا دل بہل سکے. وہ امیر صاحب کو یاد دلاتی ہے کہ کیسے وہ اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر انکے ساتھ آنے پر راضی ہوئی اور یہاں پر اسکو دیواریں تکنے کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں ہے. وہ باہر جانا چاہتی ہے لیکن امیر صاحب منع کرتے ہیں کیونکہ ان کو پردے کا خیال رکھنا ہے اور باہر کوئی غیر مرد دیکھ لیگا۔
امیر صاحب روز انھیں اندر بند کرکے چابی اپنے پاس رکھتے ہیں اور کبھی کبھی دو تین ہفتوں تک ان کے ساتھ رات نہیں  گزارتے. بیگم اس بات سے بہت تنگ آجاتی ہیں اور وہ دلاور سے بار بار اس کی وجہ پوچھتی ہیں لیکن دلاور بہانے بناتا رہتا ہے۔ بیگم صاحبہ مختلف ترکیبیں سوچتی ہیں لیکن کچھ کام نہیں آتا۔
اُدھر سکھ لڑکی کا بیٹا ہوتا ہے اور وہ اسکو لےکر بیسمیںٹ میں ہی رہتی ہے اور اب تو امیر صاحب اس لڑکی اور اس کے بیٹے سے بہت زیادہ قریب ہوجاتے ہیں اور ہر وقت ان کی خدمت کرتے رہتے ہیں-
ایک دن بیگم صاحبہ بستر پہپڑی رہتی ہیں اور بیمار ہونے کا ناٹک کرتی ہیں. دلاور کھانےے کی چیزیں لیکے دو بار آتا ہے لیکن وہ اپنے جگے سے نہیں ہلتی. دلاور پریشان ہوکے امیر صاحب کو بتاتا ہے لیکن امیر صاحب اس کو چابی دیکے کہتے ہیں کہ وہ خود اندر جاکے دیکھ لے اور طبیت زیادہ خراب ہے تو کسی طبیب کو   بلائے. دلاور جیسے ہی دروازہ کھول کے اندر جاتا ہے اور بیگم سے پوچھنے کیلئےاس کے قریب جاتا ہے تو بیگم کمبل کے نیچے سے ایک بھاری برتن نکال کے اس کے سرپر ضرب لگاتی ہے۔ کچھ اس زور سے مارتی ہیں کہ دلاور وہی پہ بے ہوش ہوجاتا ہے اور بیگم صاحبہ برقع سنبھالے وہاں سے بھاگ چلتی ہیں. شام تک دلاور واپس نہیں آتا تو امیر صاحب اس کے پیچھے کچھ رضاکاروں کو بھیجتے ہیں. رضاکار جب امیر صاحب کے گھر پہنچتے ہیں تو دروازہ باہر سے بند ہوتا ہے لیکن تالا نہیں لگا ہوتا' وہ حیران ہوکے اندر دیکھتے ہیں تو دلاور فرش پر پڑا ہوا انکو نظر آتا ہے اور اس کے سر سے خون بہ رہا ہوتا ہے-
رضاکار اسکو جلدی سے حکیم صاحب کے پاس لے جاتے ہیں اور جیسے ہی وہ نیم ہوش میں آتا ہے تو اس حالت میں اس سے سبب پوچھنے پر وہ سارا راز فاش کرتا ہے. وہ اتنے دکھ اورغصے میں ہوتا ہے کہ وہ رضاکاروں کو حکم دیتا ہے: " وہ لڑکی فساد کی جڑ ہے' وہ اور بھی کچھ کریگی ' جاؤ اور اسکو کتے کی موت مارو  مڑا خبیث کو" . رضاکار آگے پیچھے دیکے امیر صاحب کو بتائے بغیر ہی اوطاقپہنچ جاتے ہیں. اندر جاتے ہی بیسمیںٹ میں گھس جاتے ہیں اور آو دیکھ نہ تاو اور فورا سے حملہ آور ہوجاتے ہیں. وہ لڑکی ابھی اپنے ایک ماہ کے بیٹے کو سنبھالنے کی کوشش کررہی ہوتی ہے اور امیر صاحب پیچھے سے چیختے رہے لیکن ان نوجوانوں نے بھیڑ کی طرح بچے کا گلہ دبایا اور لڑکی کو تشدد کا نشانہ بناتے رہے حتٰی کہ ایک جوان نے چاقو سے یہ کہانی اپنے نام کرلی اور سوچنے لگا کہ دفتر جاکے کتنے فخر سے یہ کہانی بتائے گا۔
امیر صاحب کو کچھ سمجھ نہیں آتا ہےاور وہ ان لاشوں کے پاس ہی رات گزارتے ہیں اور اسے اپنے بیگم کی بھی خبر نہیں ہوتی کہ دوسرے دن اخبار میں لکھا ہوا آتا ہے " ایک اکیلی خاتون سرحد پار کرتے ہوئے سرحد کے اس پار فوجیوں کی زیادتی کا نشانہ بنی اور ہلاک ہوگئی" ۔ .







No comments:

Post a Comment

Posts that make me who I am

Come On Dad!!!

Come On dad!! Thousand times I tried to write on this topic, but every time I start thinking about it, I end up in wetting the pa...

What went popular?